میری اکیاون کہانیاں

میری اکیاون کہانیاں

Baland Iqbal

12,78 €
IVA incluido
Disponible
Editorial:
Baland Iqbal
Año de edición:
2024
ISBN:
9789381029428
12,78 €
IVA incluido
Disponible
Añadir a favoritos

ڈاکٹر بلند اقبال کا تعلق بھی منٹو، عصمت چغتائی ، جوش ملیح آبادی اور مصطفی زیدی کے قبیلے سے ہے جن پر اردو کے روایتی ادیب اور قاری اس لیے پتھر پھینکتے رہے ہیں کیونکہ انہیں عوام کو آئینہ دکھانے ، پورے انسان کی کہانی سنانے اور مشرقی روایات کو چیلنج کرنے کی عادت تھی۔ ان مشرقی روایات میں جنسی روایات بھی شامل ہیں اور مذہبی روایات بھی۔ ایک نفسیات کے طالبعلم ہونے کے ناطے میں ان کے افسانے بڑے شوق سے پڑھتا ہوں کیونکہ وہ ایسے جنسی اور نفسیاتی مسائل کو موضوع بناتے ہیں جنہیں باقی ادیب چھوتے ہوئے بھی ڈرتے ہیں۔ اُن کے افسانے ’یہ کیسی بے وفائی ہے’ پڑھ کر عصمت چغتائی کے افسانے لحاف اور ’گدھ’ کو پڑھ کر منٹو کے افسانے ’کالی شلوار’ کی یاد تازہ ہوگئی۔ بلند اقبال نے اپنے افسانوں میں جنسی زیادتیوں کو بھی موضوع بنایا ہے چاہے وہ بچوں کے ساتھ ہو یا عورتوں کے ساتھ۔ وہ جانتے ہیں کہ جنسی مظالم کس طرح انسانی ذہن اور شخصیت کو مجروح کرتے ہیں۔ بلند اقبال کے افسانوں پر اعتراضات کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ خدا اور مذہب کے روایتی تصورات کو بھی چیلنج کرتے ہیں اور قارئین کو نئے انداز سے سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔ اس چیلنج کا ایک تخلیقی اظہار اُن کے افسانے ’شکوہ’ کے ایک فنکار کردار کے حوالے سے ہوتا ہے ۔ بلند اقبال لکھتے ہیں ’ اُس رات وہ سفید بالوں والا بوڑھا آرٹسٹ اپنی جائےنماز پر دیر تک روتا رہا اور کسی بلبلاتے ہوئے بچے کی طرح اپنے خداوند تعالی سے گڑگڑا کر فریاد کرتا رہا اور پوچھتا رہا ’میری تخلیق تو آرٹ گیلری میں ایک بار بکتی ہے اور تمھاری تخلیق یہاں دنیا میں بار بار۔۔’جنسی اور مذہبی مسائل کے ساتھ بلند اقبال نے سماجی مسائل پر بھی قلم اٹھایا ہے جس کی ایک عمدہ مثال ’شاہ دولہ کے چوہے’ ہیں ۔ بلند اقبال ہم سے پوچھتے ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اکیسویں صدی کے سائنسی دور میں بھی معصوم بچوں کو لوہے کی ایسی ٹوپیاں پہنا دی جاتی ہیں جن سے اُن کی ذہنی نشوونما رک جاتی ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ظلم اور جبر شاہ دولہ کے چوہے تک محدود وہ ٹوپیاں دراصل سماجی و مذہبی روایات کا ایک استعارہ ہیں جن کے اندھے ایمان کی ٹوپیاں ماں باپ اپنے معصوم بچوں کو پہنا دیتے ہیں اور بچے ساری عمر منطقی، تخلیقی اور تنقیدی سوچ سے محروم ہو جاتے ہیں اور عمر بھر جسمانی طور پر بالغ ہونے کے باوجود ذہنی طور پر نابالغ رہ جاتے ہیں۔ (ڈاکٹر خالد سہیل)

Artículos relacionados

Otros libros del autor

  • متاعِ سُخن
    Baland Iqbal
    وقت کی آنکھ مجھے دیکھ رہی ہے۔ میرا ہر عمل اُس کی نگاہ کی زد میں ہے۔ میں جو کچھ دیکھتا ہوں، جو کچھ سوچتا ہوں اور جو کچھ کہتا ہوں۔۔۔ لمحوں میں تقسیم ہو کر وقت کی اکائی میں سمٹ جاتا ہے، مجھے یہ اختیار نہیں کہ میں اِس اکائی سے اپنے کسی عمل کو الگ کر سکوں، میں گزرتے لمحوں کو روک سکتا ہوں اور نہ آنے والے لمحوں کے احتساب سے بچ سکتا ہوں۔ میں چاہوں یا نہ چاہوں، میری فرد عمل مرتب ہو رہی ...
    Disponible

    35,38 €

  • پلیٹو سے پوسٹ ماڈرنزم تک ۔ مغربی ادب
    Baland Iqbal
    پلیٹو سے پوسٹ ماڈرن ازم تک ۔ مغربی ادب ادب کا یہ سفر یونانی دور سے اکیسویں صدی تک کی سماجی تبدیلیوں، سیاسی مسائل، تاریخی حادثات، فلسفیانہ تخیلات، ادبی شخصیات اوراُن کی اہم تخلیقات کے ارتقائی مراحل کے تزکروں پر مشتمل ہے جسے ڈاکٹر بلند اقبال نےعہد بہ عہد دس ادوار سے تشبہہ دی ہے کیونکہ تاریخ کا یہ عمومی سفریونانی دورسے ایک باضابطہ دستاویز کی شکل میں ملتا ہے اور پھر اُس کے بعد رومن...
    Disponible

    25,59 €